اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۱۱

یہ جبریل علیہ السلام سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری ملاقات کا ذکر ہے جس میں وہ آپ کے سامنے اپنی اصلی صورت میں نمودار ہوئے۔ اس ملاقات کا مقام ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے قریب ’’جنت الماویٰ‘‘ واقع ہے ۔
سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے  ہیں، اور منتہیٰ کے معنی ہیں آخری سرا۔’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کے لغوی معنی ہیں‘‘ وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے ‘‘۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں اس کی تشریح یہ کی ہے کہ: الیھا ینتہی علم کل عالم وما وراء حا لا یعلمہٗ الا اللہ۔ ’’ اس پر ہر عالم کا علم ختم ہو جاتا ہے ، آ گئے جو کچھ ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ قریب قریب یہی تشریح ابن جریر نے اپنی تفسیر میں، اور ابن اَثیر نے النِّہا یہ فی غریب الحدیث والاثر میں کی ہے ۔ ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالم مأویٰ کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ یہ کائنات خداوندی کے وہ اسرار ہیں جن تک ہمارے فہم کی رسائی نہیں ہے ۔ بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لیے انسانی زبان کے الفاظ میں ’’سدرہ‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔

’’جنتُ الماویٰ‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’ وہ جنت جو قیام گاہ بنے ‘‘۔ حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ وہی جنت ہے جو آخرت میں اہل ایمان و تقویٰ کو ملنے والی ہے ، اور اسی آیت ے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ جنت آسمان میں ہے ۔ قَتادہؒ کہتے ہیں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں شہداء کی ارواح رکھی جاتی ہیں، اس سے مراد وہ جنت نہیں ہے جو آخرت میں ملنے والی ہے ۔ ابن عباسؓ بھی یہی کہتے ہیں اور اس پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ آخرت جو جنت اہل ایمان کو دی جائے گی وہ آسمان میں نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ یہی زمین ہے ۔