اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۱۰

یعنی یہ مشاہدہ جو دن کی روشنی میں اور پوری بیداری کی حالت میں کھلی آنکھوں سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا۔ اس پر ان کے دل نے یہ نہیں کہا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے ، یا یہ کوئی جن یا شیطان ہے جو مجھے نظر آ رہا ہے ، یا میرے سامنے کوئی خیالی صورت آ گئی ہے اور میں جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ بلکہ ان کے دل نے ٹھیک ٹھیک وہی کچھ سمجھا جو ان کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اس امر میں کوئی شک لاحق نہیں ہوا کہ فی الواقع یہ جبریل ہیں اور جو پیغام یہ پہنچا رہے ہیں وہ واقعی خدا کی طرف سے وحی ہے ۔
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے عجیب اور غیر معمولی مشاہدے کے بارے میں قطعاً کوئی شک لاحق نہ ہوا اور آپ نے پورے یقین کے ساتھ جان لیا کہ آپ کی آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ واقعہ حقیقت ہے ، کوئی خیالی ہیولیٰ نہیں ہے اور کوئی جن یا شیطان بھی نہیں ہے ؟ اس سوال پر جب ہم غور کرتے ہیں تو اس کے پانچ وجوہ ہماری سمجھ میں آتے ہیں:
ایک یہ کہ وہ خارجی حالات جن میں مشاہدہ ہوا تھا، اس کی صحت کا یقین دلانے والے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ مشاہدہ اندھیرے میں، یا مراقبے کی حالت میں، یا خواب میں، یا نیم بیداری کی حالت میں نہیں ہوا تھا، بلکہ صبح روشن طلوع ہو چکی تھی، آپ پوری طرح بیدار تھے ، کھلی فضا میں اور دن کی پوری روشنی میں اپنی آنکھوں سے یہ منظر ٹھیک اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح کوئی شخص دنیا کے دوسرے مناظر دیکھتا ہے ۔ اس میں اگر شک کی گنجائش ہو تو ہم دن کے وقت دریا، پہاڑ، آدمی، مکان، غرض جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ سب بھی پھر مشکوک اور محض نظر کا دھوکا ہی ہو سکتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ آپ کی اپنی داخلی حالت بھی اس کی صحت کا یقین دلانے والی تھی۔ آپ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھے ۔پہلے سے آپؐ کے ذہن میں اس طرح کا سرے سے کوئی خیال نہ تھا کہ آپ کو ایسا کوئی مشاہدہ ہونا چاہیے یا ہونے والا ہے ۔ ذہن اس فکر سے اور اس کی تلاش سے بالکل خالی تھا۔ اور اس حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آیا۔ اس پر یہ شک کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ آنکھیں کسی حقیقی نظر کو نہیں دیکھ رہی ہیں بلکہ ایک خیالی ہیولیٰ سامنے آ گئیا ہے ۔
تیسرے یہ کہ جو ہستی ان حالات میں آپ کے سامنے آئی تھی وہ ایسی عظیم، ایسی شاندار، ایسی حسین اور اس قدر منور تھی کہ نہ آپؐ کے وہم و خیال میں کبھی اس سے پہلے ایسی ہستی کا تصور آیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو یہ گمان ہوتا کہ وہ آپؐ کے اپنے خیال کی آفریدہ ہے ، اور نہ کوئی جن یا شیطان اس شان کا ہو سکتا ہے کہ آپ اسے فرشتے کے سوا اور کچھ سمجھتے ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں نے جبریل کو اس صورت میں دیکھ کہ ان کے چھ سو بازو تھے (مسند احمد)۔ ایک دوسری روایت میں ابن مسعودؓ مزید تشریح کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام کا ایک ایک بازو اتنا عظیم تھا کہ افق پر چھایا ہوا نظر آتا تھا (مسند احمد)۔ اللہ تعالیٰ کواد ان کی شان کو شَدِیْدُالْقُویٰ اور ذُوْمِرَّۃٍ کے الفاظ میں بیان فرما رہا ہے ۔
چوتھے یہ کہ جو تعلیم وہ  ہستی دے رہی تھی وہ بھی اس مشاہدے کی صحت کا اطمینان دلانے والی تھی۔ اس کے ذریعہ سے اچانک جو علم، اور تمام کائنات کے حقائق پر حاوی علم آپ کو ملا اس کا کوئی تصور پہلے سے آپؐ کے ذہن میں نہ تھا کہ آپؐ اس پر یہ شبہ کرتے کہ یہ میرے اپنے ہی خیالات ہیں جو مرتب ہو کر میرے سامنے آ گئے ہیں۔ اسی طرح اس علم پر یہ شک کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی کہ شیطان اس شکل میں آ کر آپ کو دھوکا دے رہا ہے ۔ کیونکہ شیطان کا یہ کام آخر کب ہو سکتا ہے اور کب اس نے یہ کام کیا ہے کہ انسان کو شرک و بُت پرستی کے خلاف توحید خالص کی تعلیم دے ؟ آخرت کی باز پرس سے خبردار کرے ؟ جاہلیت اور اس کے طور طریقوں سے بیزار کرے ؟ فضائل اخلاق کی طرف دعوت دے ؟ اور ایک شخص سے یہ کہے کہ نہ صرف تو خود اس تعلیم کو قبول کر بلکہ ساری دنیا سے شرک اور ظلم اور فسق و فجور کو مٹانے اور ان برائیوں کی جگہ توحید اور عدل اور تقویٰ کی بھلائیاں قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو؟
پانچویں اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کو اپنی نبوت کے لیے چن لیتا ہے تو اس کے دل کو شکوک و شبہات اور وساوس سے پاک کر کے یقین و اذعان سے بھر دیتا ہے ۔ اس حالت میں اس کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور اس کے کان جو کچھ سنتے ہیں، اس کی صحت کے متعلق کوئی ادنیٰ سا تردد بھی اس کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پورے شرح صدر کے ساتھ ہر اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر منکشف کی جاتی ہے ، خواہ  وہ کسی مشاہدے کی شکل میں ہو جو اسے آنکھوں سے دکھایا جائے، یا الہامی علم کی شکل میں ہو جو اس کے دل میں ڈالا جائے، یا پیغام وحی کی شکل میں ہو جو اس کو لفظ بلفظ سنایا جائے۔ ان تمام صورتوں میں پیغمبر کو اس امر کا پورا شعور ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی شیطانی مداخلت سے قطعی محفوظ و مامون ہے اور جو کچھ بھی اس تک کسی شکل میں پہنچ رہا ہے وہ ٹھیک ٹھیک اس کے رب کی طرف سے ہے ۔ تمام خدا داد احساسات کی طرح پیغمبر کا یہ شعور و احساس بھی ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں۔ جس طرح مچھلی کو اپنے تیراک ہونے کا، پرندے کو اپنے پرندہ ہونے کا اور انسان کو اپنے انسان ہونے کا احساس بالکل خدا داد ہوتا ہے اور اس میں غلط فہمی کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا احساس بھی خدا داد ہوتا ہے ، اس کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ وسوسہ نہیں آتا کہ شاید اسے پیغمبر ہونے کی غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے ۔