اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۵

اصل میں لفظ اَلْبَحْرِالْمَسجُوْر استعمال ہوا ہے ۔ اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس کو ’’ آگ سے بھرے ہوئے‘‘ کے معنی میں لیا ہے ۔ بعض اس کو فارغ اور خالی کے معنی میں لیتے ہیں جس کا پانی زمین میں اتر کر غائب ہو گیا ہو، بعض اسے محبوس کے معنی میں لیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ سمندر کو روک کر رکھا گیا ہے تاکہ اس کا پانی زمین میں اتر کر غائب بھی نہ ہو جائے اور خشکی پر چھا بھی نہ جائے کہ زمین کے سب باشندے اس میں غرق ہو جائیں ۔ بعض اسے مخلوط کے معنی میں لیتے ہیں جس کے اندر میٹھا اور کھاری، گرم اور سرد ہر طرح کا پانی آ کر مل جاتا ہے ۔ اور بعض اسکو لبریز اور موجزن کے معنی میں لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلے دو معنی تو موقع و محل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔ سمندر کی یہ دونوں کیفیات کہ اس کی تہ پھٹ کر اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے اور وہ آگ سے بھر جائے، قیامت کے وقت ظاہر ہوں گی، جیسا کہ سورہ تکویر آیت 6، اور سورہ انفطار آیت 3 میں بیان ہوا ہے ۔ یہ آئندہ رونما ہونے والی کیفیات اس وقت موجود نہیں ہیں کہ انکی قسم کھا کر آج کے لوگوں کو آخرت کے وقوع کا یقین دلایا جائے۔ اس لیے ان دو معنوں کو ساقط کر کے یہاں البحر المسجور کو محبوس، مخلوط، اور لبریز د موجزن کے معنی ہی میں لیا جا سکتا ہے ۔