اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۳۷

یہ اسی مضمون کا اعادہ ہے جو سورہ السجدہ، آیت 21 میں گزر چکا ہے کہ ’’ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائیں ‘‘۔ یعنی دنیا میں وقتاً فوقتاً شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کر کے ہم انہیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر بالا تر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مگر جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آئندہ کبھی لیں گے ۔وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی نہیں سمجھتے ، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دور لے جانے والی ہو، اور کسی ایسی تاویل کی طرف ان کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہو جائے۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی ہے کہ : ان المنافق اذا مرض تم اعفی کان کالبعیر عقل اھلہ تم ارسلوہ فَلَمْ یدرلِمَ عقلوہ ولم ید ر لِمَ ارسلوO (ابو داؤد، کتاب الجنائز) یعنی ’’ منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے ۔’’ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ 45۔ انمل، حاشیہ 66،۔ العنکبوت، حاشیہ 72۔73)۔