اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۳۲

یعنی رسول تمہارے سامنے جو حقائق پیش کر رہا ہے ان کو جھٹلانے کے لیے آخر تمہارے پاس وہ کون سا علم ہے جسے تم اس دعوے کے ساتھ پیش کر سکو کہ پردۂ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کو تم براہ راست جانتے ہو؟ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ خدا ایک نہیں ہے بلکہ وہ سب بھی خدائی صفات و اختیارات رکھتے ہیں جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے ٍ؟ کیا واقعی تم نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ لڑکیاں ہیں اور نعوذ باللہ، خدا کے ہاں پیدا ہوئی ہیں ؟ کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ کوئی وحی نہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی ہے نہ خدا کی طرف سے کسی بندے کے پاس آسکتی ہے ٍ؟ کیا واقعی تمہیں اس بات کا علم ہے کہ کوئی قیامت برپا نہیں ہونی ہے اور مرنے کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہو گی اور کوئی عالم آخرت قائم نہ ہو گا جس میں انسان کا محاسبہ ہو اور اسے جزا و سزا دی  جائے؟ اگر اس طرح کے کسی علم کا تمہیں  دعویٰ غیب کے پیچھے جھانک کر تم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو رسول بیان کر رہا ہے ٍ؟ اس مقام پر ایک شخص یہ شبہ ظاہر کر سکتا ہے کہ اس کے جواب میں اگر وہ لوگ ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ لکھ بھی دیتے تو جس معاشرے میں یہ چیلنج برسر عام پیش کیا گیا تھا اس کے عام لوگ اندھے تو نہ تھے ۔ ہر شخص جان لیتا کہ یہ لکھا سراسر ہٹ دھرمی کے ساتھ دیا گیا ہے اور در حقیقت رسول کے بیانات کو جھٹلانے کی بنیاد یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو ان کے خلاف واقعہ ہوتے کا علم حاصل ہے ۔