اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۳

’’ آباد گھر‘‘ سے مراد حضرت حسن بصری کے نزدیک بیت اللہ، یعنی خانہ کعبہ ہے جو کبھی حج اور عمرہ اور طواف و زیارت کرنے والوں سے خالی نہیں رہتا۔ اور حضرت علی، ابن عباس، عِکرِمہ، مجاہد، قَتَادہ، ضحّاک، ابن زَید اور دوسرے مفسرین اس سے مراد وہ بیتِ معمور لیتے ہیں جس کا ذکر معراج کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ، جس کی دیوار سے آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ٹک لگائے دیکھا تھا۔ مجاہد، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ اہل زمین کے لیے خدا پرستوں کا مرکز  و مرجع ہے ، اسی طرح ہر آسمان میں اس کے باشندوں کے لیے ایسا ہی ایک کعبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے ایسی ہی مرکزیت رکھتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک کعبہ وہ تھا جس کی دیوار سے ٹیک لگائے حضرت ابراہیم علیہ السلام معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آئے تھے ، اور اس سے حضرت ابراہیمؑ کی مناسبت فطری تھی کیونکہ آپ ہی زمین والے کعبہ کے بانی ہیں ۔ اس تشریح کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ دوسری تفسیر حضرت حسن بصری کی تفسیر کے خلاف نہیں پڑتی، بلکہ دونوں کو ملا کر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں قَسم صرف زمین ہی کے کعبہ کی نہیں کھائی گئی ہے بلکہ اس میں ان تمام کعبوں کی قَسم بھی شامل ہے جو ساری کائنات میں موجود ہیں ۔