اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۲۸

اس سے پہلے جو سوالات چھڑے گئے تھے وہ کفار مکہ کو یہ احساس دلانے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوائے رسالت کو جھٹلانے کے لیے جو باتیں وہ بنا رہے ہیں وہ کس قدر غیر معقول ہیں ۔ اب اس آیت میں ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو دعوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں آخر اس میں وہ بات کیا ہے جو پر تم لوگ اس قدر بگڑ رہے ہو۔ وہ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تمہارا خلق ہے اور اسی کی تم کو بند گی کرنی چاہیے ۔ اس پر تمہارے بگڑنے کی آخر کیا معقول وجہ ہے ؟ کیا تم خود بن گئے ہو، کسی بنانے والے نے تمہیں نہیں بنایا؟ یا اپنے بنانے والے تم خود ہو؟ یا یہ وسیع کائنات تمہاری بنانی ہونی ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے اور تم خود مانتے ہو کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہی ہے اور اس کائنات کا خلاق بھی وہی ہے ، تو اس شخص پر تمہیں غصہ کیوں آتا ہے جو تم سے کہاتا ہے کہ وہی اللہ تمہاری بندگی و پرستش کا مستحق ہے ؟ غصے کے لائق بات یہ ہے یا یہ کہ جو خالق نہیں ہیں ان کی بندگی کی جائے اور جو خالق ہے اس کی بندگی نہ کی جائے؟ تم زبان سے یہ اقرار تو ضرور کرتے ہو کہ اللہ ہی تمہارا اور کائنات کا خالق ہے ، لیکن اگر تمہیں واقعی اس بات کا یقین ہوتا تو اس کی بندگی کی طرف بالنے والے کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر نہ پڑ جاتے ۔

یہ ایسا زبردست چبھتا ہوا سوال تھا کہ اس نے مشرکین کے عقیدے کی چولیں ہلا دیں ۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جبیر بن مطعم جنگ بدر کے بعد قریش کے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے مدینہ آئے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورہ طور زیر تلاوت تھی۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب حضور اس مقام پر  پہنچے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔