اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۲۶

دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے ہیں خود ان کا دل یہ جانتا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہو سکتا، اور دوسرے وہ لوگ بھی جو اہل زبان ہیں نہ صرف یہ کہ اسے سن کر صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ انسانی کلام سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے بلکہ ان میں سے جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے واقف ہے وہ کبھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ واقعی آپ ہی کا کلام ہے ۔ پس صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کو آپ کی تصنیف قرار دینے والے در اصل ایمان نہیں لانا چاہتے اسلیے وہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے گھڑ رہے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 21۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ 12۔ القصص، حاشیہ 64۔ العنکبوت، حاشیہ 88۔ 89۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ 1 تا 4۔ حٰم السجدہ، حاشیہ۔ 54۔ الاحقاف، حاشیہ 8 تا 10)۔