اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۲۲

اوپر آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب تقریر کا رخ کفار مکہ کی ان ہٹ دھرمیوں کی طرف پھر رہا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہاں خطاب بظاہر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر دراصل آپ کے واسطے سے یہ باتیں کفار مکہ کو سنائی مقصود ہیں ۔ ان کے سامنے جب آپ قیامت، اور حش و نشر، اور حساب و کتاب، اور جزا و سزاء اور جنت و جہنم کی باتیں کرتے تھے ، اور ان مضامین پر مشتمل قرآن مجید کی آیات اس دعوے کے ساتھ ان کو سناتے تھے کہ یہ خبریں اللہ کی طرف سے میرے پاس آئی ہیں اور یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے ، تو ان کے سردار اور مذہبی پیشوا اور اَوباش لوگ آپ کی ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ نہ خود غور کرتے تھے ، نہ یہ چاہتے تھے کہ عوام ان کی طرف توجہ کریں ۔ اس لیے وہ آپ کے اوپر کبھی یہ فقرہ کستے تھے کہ آپ کاہن ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ مجنون ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ شاعر ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ خود اپنے دل سے یہ نرالی باتیں گھڑتے ہیں اور محض اپنا رنگ جمانے کے لیے انہیں خدا کی نازل کردہ وحی کہہ کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کے فقرے کس کر وہ لوگوں کو آپ کی طرف سے بدگمان کر دیں گے اور آپ کی ساری باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی، واقعی حقیقت تو وہی کچھ ہے جو سورۃ کے آغاز سے یہاں تک بیان کی گئی ہے ۔ اب اگر یہ لوگ ان باتوں پر تمہیں کاہن اور مجنون کہتے ہیں تو پروا نہ کرو اور بندگان خدا کو غفلت سے چونکانے اور حقیقت سے خبردار کرنے کا کام کرتے چلے جاؤ، کیونکہ خدا کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون۔
’’کاہن‘‘ عربی زبان میں جوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا، اس ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں ، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں ۔کوئی چیز کھوئی جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے ۔ کسی کے ہاں چوری ہو جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے ۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے ۔اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی بسا اوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے ۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے ۔ قریش کے سرداروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کاہن ہونے کا الزام صرف اس بنا پر لگا دیا کہ آپ ان حقائق کی خبر دے رہے تھے جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ، اور آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آ کر آپ پر وحی نازل کرتا ہے ، اور خدا کا جو کلام آپ پیش کر رہے تھے وہ بھی مقفّیٰ تھا۔ لیکن عرب میں کوئی شخص بھی ان کے اس الزام سے دھوکا نہ کھا سکتا تھا۔ اس لیے کہ کاہنوں کے پیشے اور ان کی وضع قطع اور ان کی زبان اور ان کے کاروبار سے کوئی بھی نا واقف نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ، اور کن مضامین پر وہ مشتمل ہوتے ہیں ۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کاہن کا سرے سے یہ کام ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ قوم کے رائج الوقت عقائد کے خلاف ایک عقیدہ لے کر اٹھتا اور شب و روز اس کی تبلیغ میں اپنی جان کھپاتا اور اس کی خاطر سری قوم کی دشمنی مول لیتا۔ اس لیے رسل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کہانت کا یہ الزام برائے نام بھی کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا کہ یہ پھبتی آپ پر چسپاں ہو سکتی اور عرب کا کوئی کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا۔

اسی طرح آپ پر جنون کا الزام بھی کفار مکہ محض اپنے دل کی تسلی کے لیے لگاتے تھے جیسے موجودہ زمانے کے بعض بے شرم مغربی مصنفین اسلام کے خلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعوے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ حضور پر صرع (Epilepsy) کے دورے پڑتے تھے اور انہی دوروں کی حالت میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا اسے لوگ وحی سمجھتے تھے ۔ ایسے بیہودہ الزامات کو کسی صاحب عقل آدمی نے نہ اس زمانے میں قابل اعتنا سمجھا تھا، نہ آج کوئی شخص قرآن کو پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرع کے دوروں کا کرشمہ ہے ۔