اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۹

یعنی انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اپنے ان غلط اندازوں کی وجہ سے وہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ ان اندازوں کی بنا پر جو راستہ بھی کسی نے اختیار کیا ہے وہ سیدھا تباہی کی طرف جاتا ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہے وہ سرے سے کسی جوابدہی کی تیاری ہی نہیں کر رہا ہے اور اس خیال میں مگن ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہو گی، حالانکہ اچانک وہ وقت آ جائے گا جب اس کی توقعات کے بالکل خلاف دوسری زندگی میں اس کی آنکھیں کھلیں گی، اور اسے معلوم ہو گا کہ یہاں اس کو اپنے ایک ایک عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ جو شخص اس خیال میں ساری عمر کھپا رہا ہے کہ مر کر پھر اسی دنیا میں واپس آؤں گا اسے مرتے معلوم ہو جائے گا کہ اس واپسی کے سارے دروازے بند ہیں، کسی نئے عمل سے پچھلی زندگی کے اعمال کی تلافی کا اب کوئی موقع نہیں،اور آگے ایک اور زندگی ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے اپنی دنیوی زندگی کے نتائج دیکھنے اور بھگتنے ہیں۔ جو شخص اس امید میں اپنے آپ کو ہلاک کیے ڈالتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو جب پوری طرح مار دونگا تو فنائے محض کی شکل میں مجھے عذاب ہستی سے نجات مل جائے گی، وہ موت کے دروازے سے گزرتے ہی دیکھ لے گا کہ آگے فنا نہیں بلکہ بقا ہے اور اسے اب اس امر کی جوابدہی کرنی ہے کہ کیا تجھے وجود کی نعمت اسی لیے دی گئی تھی کہ تو اسے بنانے اور سنوارنے کے بجائے مٹانے میں اپنی ساری محنتیں صرف کر دیتا؟ اسی طرح جو شخص کسی ابن اللہ کے کفارہ بن جانے یا کسی بزرگ ہستی کے شفیع بن جانے پر بھروسہ کر کے عمر پھر خدا کی نا فرمانیاں کرتا رہا اسے خدا کے سامنے پہنچتے ہی پتہ چل جائے گا کہ یہاں نہ کوئی کسی کا کفارہ ادا کرنے والا ہے اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اپنے زور سے یا اپنی محبوبیت کے صدقے میں کسی کو خدا کی پکڑ سے بچا لے۔ پس یہ تمام قیاسی عقیدے در حقیقت ایک افیون ہیں جس کی پینگ میں یہ لوگ بے سدھ پڑے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ خدا اور نبیاء کے دیے ہوئے صحیح علم کو نظر انداز کر کے اپنی جس جہالت پر یہ مگن ہیں وہ انہیں کدھر لیے جا رہی ہے۔