اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۱

اس اقوال پر متفرق شکلوں والے آسمان کی قسم تشبیہ کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یعنی جس طرح آسمان کے بادلوں اور تاروں کے جھرمٹوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی اسی طرح آخرت کے متعلق تم لوگ بھانت  بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک بات دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا ازلی و ابدی ہے اور کوئی قیامت برپا نہیں ہو سکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہو سکتا ہے، مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہو گئی، پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے، مگر اس کے ساتھ تناسُخ کو بھی ملاتا رہتا ہے، یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گناہ گار جہنم میں بھی جا کر سزا بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی کہاتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے جب تک انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے، اور اس کی حقیقی نجات (نِروان) یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہو جائے۔ کوئی آخرت اور جنت و جہنم کا قائل ہے، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے، اور اس بیٹے پر ایمان لا کر آدمی اپنے اعمال بد کے برے نتائج سے بچ جائے گا۔ کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزا و سزا، ہر چیز کو مان کر بعض سیسے بزرگوں کو شفیع تجویز کر لیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں، یا اللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے جچ سکتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے،بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں۔ یہ اختلاف اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہے وحی و رسالت سے بے نیاز ہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے،علم کے بغیر قائم کی ہے۔ ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہ راست علم کا کوئی ذریعہ ہوتا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ ہوتے۔