اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۵۳

یعنی میں نے ان کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ میری بندگی تو ان کو اس لیے کرنی چاہیے کہ میں ان کا خالق ہوں۔ دوسرے کسی نے جب ان کو پیدا نہیں کیا ہے تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اس کی بندگی کریں، اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ان کا خالق تو ہوں میں اور یہ بندگی کرتے پھریں دوسروں کی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف جنوں اور انسانوں ہی کا خالق تو نہیں ہے۔ بلکہ سارے جہان اور اس کی ہر چیز کا خالق ہے، پھر یہاں صرف جنوں اور انسانوں ہی کے متعلق کیوں فرمایا گیا کہ میں نے ان کو اپنے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ حالانکہ مخلوقات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی کی بندگی کے لیے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر صرف جن اور انسان ایسی مخلوق ہیں جن کو یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں، درد وہ بندگی سے منہ بھی کوڑ سکتے ہیں، اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری جتنی مخلوقات بھی اس دنیا میں ہیں وہ اس نوعیت کی کوئی آزادی نہیں رکھتیں۔ ان کے لیے سرے سے کوئی دائرہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس میں اللہ کی بندگی نہ کریں یا کسی اور کی بندگی کر سکیں۔ اس لیے یہاں صرف جنوں اور انسانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے حدود میں اپنے خالق کی اطاعت و عبودیت سے منہ موڑ کر، اور خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے خود اپنی فطرت سے لڑ رہے ہیں، ان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ خالق کے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں اور ان کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ جو آزادی انہیں بخشی گئی ہے اسے غلط استعمال نہ کریں بلکہ اس آزادی کے حدود میں بھی خود پنی مرضی سے اسی طرح خدا کی بندگی کریں جس طرح ان کے جسم کا رونگٹا رونگٹا ان کی زندگی کے غیر اختیاری حدود میں اس کی بندگی کر رہا ہے۔
عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ مفہوم بھی اگر چہ اس میں شامل ہے، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ سوا کسیاور کی پرستش،اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا، کسی اور کے احکام بجا لانا، کسی اور سے تقویٰ کرنا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا، اور کسی دوسری ہوتی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 63۔ الزمر، حاشیہ 2۔ الجاثیہ، حاشیہ 30۔

ایک اور بات جو ضمنی طور پر اس آیت سے صاف ظاہر ہوتی ہے  وہ یہ ہے کہ جن انسانوں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو قرآن میں جن کہا گیا ہے۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی ناقابل انکار شہادت بہم پہنچاتی ہیں (الانعام،100،128۔ الاعراف 38، 179، ہود ، 119، الحجر ، 27 تا 33۔ بنی اسرائیل،،88۔ الکہف، 50۔ السجدہ، 13۔سبا، 41۔ صٓ، 75 ،767۔ حٰم السجدہ، 25۔ الاحقاف، 18۔ الرحمٰن، 15،39،56۔(اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد،سوم، الانبیاء، حاشیہ 21۔ النمل، حاشیہ 23، 45۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 24)۔