اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۵۰

یعنی یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہزارہا برس تک ہر زمانے میں مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگوں کا دعوت انبیاء کے مقابلے میں ایک ہی رویہ اختیار کرنا، اور ایک ہی طرح کی باتیں ان کے خلاف بنانا کچھ اس بنا پر تو نہ ہو سکتا تھا کہ ایک کانفرنس کر کے ان سب اگلی اور پچھلی نسلوں نے آپس میں یہ طے کر لیا ہو کہ جب کوئی نبی آ کر یہ دعوت پیش کرے تو اس کا یہ جواب دیا جائے۔ پھر ان کے رویے کی یہ یکسانی اور ایک ہی طرز جواب کی یہ مسلسل تکرار کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ طغیان و سرکشی ان سب کا مشترک وصف ہے۔ چونکہ ہر زمانے کے جاہل لوگ خدا کی بندگی سے آزاد اور اس کے محاسبہ سے بے خوف ہو کر دنیا میں شُتر بے مہار کی طرح جینے کے خواہاں رہے ہیں، اس لیے اور صرف اسی لیے جس نے بھی ان کو خدا کی بندگی اور خدا ترسانہ زندگی کی طرف بلایا اس کو وہ ایک ہی لگا بندھا جواب دیتے رہے۔

اس ارشاد سے ایک اور اہم حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ضلالت اور ہدایت، نیکی اور بدی ظلم اور عدل اور ایسے ہی دوسرے اعمال کے جو محرکات نفسِ انسانی میں بالطبع موجود ہیں ان کا ظہور ہمیشہ ہر زمانے میں اور زمین کے ہر گوشے میں ایک ہی طرح ہوتا ہے، خواہ ذرائع و وسائل کی ترقی سے اس کی شکلیں بظاہر کتنی ہی مختلف نظر آتی ہوں۔ آج کا انسان خواہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں کے ذریعہ سے لڑے اور قدیم زمانے کا انسان چاہے پتھروں اور لاٹھیوں سے لڑتا ہو، مگر انسانوں کے درمیان جنگ کے بنیادی محرکات میں سر مُو فرق نہیں آیا ہے۔ اسی طرح آج کا ملحد اپنے الحاد کے لیے دلائل کے خواہ کتنے ہی انبار لگاتا رہے، اس کے اس راہ پر جانے کے محرکات بعینہٖ وہی ہیں جو آج سے 6 ہزار برس پہلے کے کسی ملحد کو اس طرف لے گئے تھے، اور بنیادی طور پر وہ اپنے استدلال میں بھی اپنے سابق پیشواؤں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔