اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۴۸

یہ فقرے اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ گویا بات در اصل یوں ہے کہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کہلوا رہا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہیں اس کی طرف سے خبردار کرتا ہوں۔ اس طرز کلام کی مثال قرآن کی اولین سورۃ، یعنی سورہ فاتحہ میں موجود جس میں کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر متکلم کی حیثیت سے بندے عرض کرتے ہیں: اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ جس طرح وہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ ’’ اے اہل ایمان تم اپنے رب سے یوں دعا مانگو‘‘، مگر فَحوائے کلام سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ ایک دعا ہے جو اللہ اپنے بندوں کو سکھا رہا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اے نبی تم ان لوگوں سے کہو‘‘، مگر فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ توحید کی ایک دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ اس طرز کلام کی اور بھی متعدد نظیریں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں کلام تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر متکلم کہیں فرشتے ہوتے ہیں اور کہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم،اور اس امر کی تصریح کے بغیر کہ یہاں متکلم کون ہے، سیاق عبارت سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنا یہ کلام کس کی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ مریم 64۔ 65۔ الصافات 159 تا 167۔ الشوریٰ 10۔