اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۴۷

مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کا تزویج کے اصول پر بنا یا جانا، اور دنیا کی تمام اشیاء کا زَوج زَوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے۔ اگر تم غور کرو تو اس سے خود تمہاری عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز کا ایک جوڑا ہے، اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی، تو دنیا کی یہ زندی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے؟ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے۔ وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔

آگے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگر چہ یہاں تک ساری بحث آخرت کے موضوع پر چلی آ رہی ہے، لیکن اسی بحث اور انہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود، کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کار فرمائی، یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے۔ اس لیے آگے انہی دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت پیش کی جا رہی ہے۔ علاوہ بریں آخرت کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا سے بغاوت کا رویہ چھوڑ کر اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے۔ وہ خدا سے اسی وقت تک پِھرا رہتا ہے جب گی ہو اس غفلت میں مبتلا رہتا ہے کہ میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال کا کوئی حساب مجھے کسی کو دینا نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی جس وقت بھی رفع ہو جائے، اس کے ساتھ ہی فوراً آدمی کے ضمیر میں یہ احساس ابھر آتا ہے کہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر وہ بڑی باری غلطی کر رہا تھا اور یہ احساس اسے خدا کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔اسی بنا پر آخرت کے دلائل ختم کرتے ہی معاً بعد یہ فرمایا گیا ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘۔