اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۳۸

اس چھوٹے سے فقرے میں تاریخ کی ایک پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ذرا چشم تصور کے سامنے یہ نقشہ لے آئیے کہ فرعون اس وقت دنیا کے سب سے بڑے مرکز تہزیب و تمدن کا عظیم فرما نروا تھا جس کی شوکت و سطوت سے گرد و پیش کی ساری قومیں خوف زدہ تھیں۔ ظاہر بات ہے کہ وہ جب اپنے لشکروں سمیت اچانک ایک روز غرقاب ہوا ہوگا تو صرف مصر ہی میں نہیں، آس پاس کی تمام قوموں میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی ہوگی۔ مگر اس پر بجز ان لوگوں کے جن کے اپنے قریبی رشتہ دار غرق ہوئے تھے، باقی کوئی نہ تھا جوان کے اپنے ملک میں، یا دنیا کی دوسری قوموں میں ماتم کرتا یا ان کا مثیہ کہتا، یا کم از کم یہی کہنے والا ہوتا کہ افسوس، کیسے اچھے لوگ تھے جو اس حادثہ کے شکار ہوگئے۔ اس کے بجائے، چونکہ دنیا ان کے ظلم سے تنگ آئی ہوئی تھی، اس لیے ان کے عبرتناک انجام پر ہو شخص نے اطمینان کا سانس لیا، ہر زبان نے ان پر ملامت کی پھٹکار برسائی، اور جس نے بھی اس خبر کو سنا وہ پکار اٹھا کہ یہ ظالم اسی انجام کے مستحق تھے۔ سورہ دخان میں اسی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَا لْاَرْضُ، ’’پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین ‘‘۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ دخان، حاشیہ 25 )۔