اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۳۵

اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار (Dead Sea) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مُردار کا پانی پھیل گیا تھا، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو ’’للِّسان‘‘ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مُردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط کا زمانہ ہے۔ 1965 ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو للسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 114)۔