اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۳۴

یعنی پوری قوم میں، اور اس کے پورے علاقے میں صرف ایک گھر تھا جس میں ایمان و اسلام کی روشنی پائی جاتی تھی، اور وہ تنہا حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا۔ باقی پوری قوم فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی تھی، اور اس کا سارا ملک گندگی سے لبریز ہو چکا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ایک گھر کے لوگوں کو بچا کر نکال لیا اور اس کے بعد اس ملک پر وہ تباہی نازل کی جس سے اس بد کار قوم کا کوئی فرد بچ کر نہ جا سکا۔
اس آیت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا قانون مکافات اس وقت تک کسی قوم کی کامل تباہی کا فیصلہ نہیں کرتا جب تک اس میں کچھ قابل لحاظ بھلائی موجود رہے۔ برے لوگوں کی اکثریت کے مقابلے میں اگر ایک قلیل عنصر بھی ایسا پایا جاتا ہو جو بدی کو روکنے اور نیکی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کوشاں ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کام کرنے کا موقع دیتا ہے اور اس قوم کی مہلت میں اضافہ کرتا رہتا ہے جو ابھی خیر سے بالکل خالی نہیں ہوئی ہے۔ مگر جب حالت یہ ہو جائے کہ کسی قوم کے اندر آٹے میں نمک کے برابر بھی خیر باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو دو چار نیک انسان اسکی بستیوں میں بُرائی کے خلاف لڑتے لڑتے تھک کر عاجز آ چکے ہوں انہیں وہ اپنی قدرت سے کسی نہ کسی طرح بچا کر نکال دیتا ہے اور باقی لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو ہر ہوش مند مالک اپنے سڑے ہوئے پھلوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
دوسرے یہ کہ ’’مسلمان‘‘ صرف اسی امت کا نام نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیرو ہے، بلکہ آپ سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کے پیرو بھی مسلمان ہی تھے۔ ان کے ادیان الگ الگ نہ تھی کہ کوئی دین ابراہیمی ہو اور کوئی موسوی اور کوئی عیسوی۔ بلکہ وہ سب مسلم تھے اور ان کا دین یہی اسلام تھا۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت جگہ جگہ اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں: البقرہ، 128، 131،133،۔ آل عمران، 67۔ المائدہ،44،111۔ یونس، 72،84،۔یوسف، 101۔الاعراف، 128۔ انمل 31،42،44۔

تیسرے یہ کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے الفاظ اس آیت میں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ اس آیت کو اگر سورہ حجرات کی آیت 14 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ان لوگوں کے خیال کی غلطی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ قرآن مجید کی دو ایسی مستقل اصطلاحیں ہیں جو ہر جگہ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوئی ہیں اور ’’مسلم‘‘ لازماً اُسی شخص کو کہتے ہیں جو ایمان کے بغیر محض بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حجرات، حاشیہ 731۔