اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۵

اس مختصر سے فقرے میں بھی ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے صرف تعجب کرنے اور بعید از عقل ٹھیرانے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دعوت حق پیش کی اسی وقت بلا تامل اسے قطعی جھوٹ قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ لازماً یہ ہونا تھا اور یہی ہوا کہ انہیں اس دعوت اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے معاملہ میں کسی ایک موقف پر قرار نہیں ہے۔ کبھی اس کو شاعر کہتے ہیں تو کبھی کاہن اور کبھی مجنون۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ کسی نے  اس پر جادو کر دیا ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے خود یہ چیز بنا لایا ہے، اور کبھی یہ الزام تراشتے ہیں کہ اس کے پس پشت کچھ دوسرے لوگ ہیں جو یہ کلام گھڑ گھڑ کر اسے دیتے ہیں۔ یہ متضاد باتیں خود ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس الجھن میں یہ ہر گز نہ پڑتے اگر جلد بازی کر کے نبی کو پہلے ہی قدم پر جھٹلا نہ دیتے اور بلا فکر و تامل ایک پیشگی فیصلہ صادر کر دینے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے کہ یہ دعوت کون پیش کر رہا ہے، کیا بات کہہ رہا ہے اور اس کے لیے دلیل کیا دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ کہیں سے اچانک ان کے درمیان نہ آ کھڑا ہوا تھا۔ ان کی اپنی ہی قوم کا فرد تھا۔ ان کا اپنا دیکھا بھالا آدمی تھا۔ یہ اس کی سیرت و کردار اور اس کی قابلیت سے نا واقف نہ تھے۔ ایسے آدمی کی طرف سے جب ایک بات پیش کی گئی تھی تو چاہے اسے فوراً قبول نہ کر لیا جاتا، مگر وہ اس کی مستحق بھی تو نہ تھی کہ سنتے ہی اسے رد کر دیا جاتا۔ پھر وہ بات بے دلیل بھی نہ تھی۔ وہ اس کے لیے دلائل پیش کر رہا تھا۔ چاہیے تھا کہ اس کے دلائل کھلے کانوں سے سنے جاتے اور تعصب کے بغیر ان کو جانچ کر دیکھا جاتا کہ وہ کہاں گم معقول ہیں۔ لیکن یہ روش اختیار کرنے کے بجائے جب ان لوگوں نے ضد میں آ کر ابتدا ہی میں اسے جھٹلا دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت تک پہنچنے کا دروازہ تو انہوں نے اپنے لیے خود بند کر لیا اور ہر طرف بھٹکتے پھرنے کے بہت سے راستے کھول لیے۔ اب یہ اپنی ابتدائی غلطی کو نباہنے کے لیے دس متضاد باتیں تو بنا سکتے ہیں مگر اس ایک بات کو سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ نبی سچا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی پیش کردہ بات حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔