اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۲۱

یعنی ایک طرف تو ہم خود براہ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتے ہیں، دوسری طرف ہر انسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کی معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہوگی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہوگا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لا کر سامنے رکھ دیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہوگا، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے۔ مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے۔ کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے اس میں ہر طرف اس کی آوازیں، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرے ذرے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہٖ ان ہی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقید۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فِلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کر سکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی ہو باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کر توتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے دیگا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کو پورا ثبت ناقابل انکار شہادتوں سے فراہم ہو جائے۔