اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۲

یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات ’’ بلکہ‘‘ سے شروع کر دی گئی ہے۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قَسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے۔ اس میں در اصل قسم جس بات پر کھائی گئی  ہے وہ یہ ہے کہ ’’اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے کسی معقول بنیاد پر انکار نہیں کیا ہے، بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی جنس کے ایک بشر، اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا اپنے بندوں کی بھلائی اور برائی سے بے پروا ہو کر انہیں خبردا ر کرنے کا کوئی انتظام نہ کرتا، یا انسانوں کو خبر دار کرنے کے لیے کیس غیر انسان کو بھیجتا، یا عربوں کو خبر دار کرنے کے لیے کسی چینی کو بھیج دیتا۔ اس لیے انکار کی یہ بنیاد تو قطعی نا معقول ہے اور ایک صاحب عقل سلیم یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسی شکل میں ہونا چاہیے یہ خبر دار کرنے والا خود انہی لوگوں میں سے کوئی شخص ہو جن کے درمیان وہ بھیجا گیا ہو‘‘۔ اب رہ جاتا ہے کہ سوال کہ آیا محمد صلی اللہ عدلیہ و سلم ہی وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے ا س کام کے لیے بھجا ہے، تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی اور شہادت کی حاجت نہیں، یہ عظیم و کریم قرآن، جسے وہ پیش کر رہے ہیں، اس بات کا ثبوت دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔

اس تشریح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بے جا ہے۔ اور قرآن کے ’’مجید‘‘ ہونے کو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔