اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۱۲

اس سے پہلے سورہ فرقان، آیت 28 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں، ایک نجد میں، دوسرا شمالی حجاز میں۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں۔