اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۱۱

استدلال یہ ہے کہ جس خدا نے زمین کے اس کرے کو زندہ مخلوقات کی سکونت کے لیے موزوں مقام بنا یا، اور جس نے زمین کی بے جان مٹی کو آسمان کے بے جان پانی کے ساتھ ملا کر اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیدا کر دی جسے تم اپنے باغوں اور کھیتوں کی شکل میں لہلہاتے دیک رہے ہو، اور جس نے اس نباتات کو انسان و حیوان سب کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیا، اس کے متعلق تمہارا یہ گمان کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دو بارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، سراسر بے عقلی کا گمان ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے آئے دن دیکھتے ہو کہ ایک علاقہ بالکل خشک اور بے جان پڑا ہوا ہے۔ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے اندر یکایک زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، مدتوں کی مری ہوئی جڑیں یک لخت جی اٹھتی ہیں، اور طرح طرح کے  حشرات الارض زمین کی تہوں سے نکل کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی نا ممکن نہیں ہے۔ اپنے اس صریح مشاہدے کو جب تم نہیں جھٹلا سکتے تو اس بات کو کیسے جھٹلاتے ہو کہ جب خدا چاہے گا تم خود بھی اسی طرح زمین سے نکل آؤ گے جس طرح نباتات کی کونپلیں نکل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب کی سر زمین میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بسا اوقات پانچ پانچ برس بارش نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ مدت گزر جاتی ہے اور آسمان سے ایک خطرہ تک نہیں ٹپکتا۔ اتنے طویل زمانے تک تپتے ہوئے ریگستانوں میں گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کا زندہ رہنا قابل تصور نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب وہاں کسی وقت تھوڑی سی بارش بھی ہو جاتی ہے تو گھاس نکل آتی ہے اور حشرات الارض جی اٹھتے ہیں۔ اس لیے عرب کے لوگ اس استدلال کو ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں اتنی طویل خشک سالی کا تجربہ نہیں ہوتا۔