سورۃ الحجرات حاشیہ نمبر۲۸ |
|
پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل کو خدا کی چیدہ مخلوق ٹھیرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبے کو اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں درن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی بر تری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھیرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لُوٹیں، غلام بنائیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پر ستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ |