اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۶

’’ سکینت ‘‘ عربی زبان میں  سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو ساا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے بر حق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔