اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۴۸

یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کے الفاظ جو استعمال فرمائے ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہوگی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل ہوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں۔