اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۴۵

جاہلانہ حمیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک کی خاطر یا اپنی بات کی پچ میں جان بوجھ کر ایک ناروا کام کرے ۔ کفار مکہ خود جانتے اور مانتے تھے کہ ہر شخص کو حج اور عمرے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کا حق حاصل ہے، اور کسی کو اس مذہبی فریضے سے روکنے کا حق نہیں ہے۔ یہ عرب کا قدیم ترین مسلّم آئین تھا۔ لیکن اپنے آپ کو سراسر ناحق پر اور مسلمانوں کو بالکل بر سر حق جاننے کے باوجود انہوں نے محض اپنی ناک کی خاطر مسلمانوں کو عمرے سے روکا۔ خود مشرکین میں سے جو راستی پسند تھے وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ احرام باندھ کر ہدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے آئے ہیں ان کو روکنا ایک بے جا حرکت ہے۔ مگر قریش کے سردار صرف اس خیال سے مزاحمت پر اڑے رہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم اتنی بڑی جمیعت کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ یہی ان کی حمیت جاہلیہ تھی۔