اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۱

صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسیکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔’’ قسم ہےاس ذات کیجس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دیتے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے‘‘؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فری الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ ’’ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں‘‘(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر)۔