سورۃ محمد حاشیہ نمبر۸ |
|
اس آیت کے الفاظ سے بھی، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آ جانے کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ’’جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈ بھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ آگے آیت 20 کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے لیں کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورہ حج کی آیت 39 اور سورہ بقرہ کی آیت 190 میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو۔ اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیات 67۔69 بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ وہاں ارشاد ہوا ہے : ’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے‘‘۔ اس عبارت اور خصوصاً اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو کرنے میں لگ گئے تھے، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورہ محمدؐ میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ’’جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘‘۔ تاہم، چونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی۔ ’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا‘‘ کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورہ محمدؐ کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو۔ اس لیے یہ ماننے پڑے گا کہ یہ آیت سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم تفسیر سورہ انفال، حاشیہ 49)۔ یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں، اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے جس طرح عمل کیا ہے، اور فقہاء نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : 1)۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہو جائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کر دیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔ 2)۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کر لو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حسن بصری،عطاء اور حماد بن ابی سلیمان، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جا سکتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہو گئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آگیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص کی روایت ہے کہ کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ امام محمد نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا۔ 3)۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشا یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر مے 70 قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا۔ نبی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ کے فیصلے پر حوالے کیا تھا، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کر دیا جائے۔ ان مستثنیات کے سوا حضور کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کر سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہو جائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کر لے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جا سکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کر دیا جائے، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے۔ 4)۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عم حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو، یا فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چر چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کر دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت ہی نے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں، ان کا تبادلہ کر لیا جائے۔ ان سب مختلف صورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کر دیا ہے۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کر سکتی ہے۔ 5)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج، حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور عملاً بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استو صوابالا سارٰی خیراً، ’’ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘۔ ان میں سے ایک قیدی، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلقو حضور سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے، اس کے دانت تڑوا دیجیے۔ حضور نے جواب دیا ’’اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگر چہ میں نبی ہوں‘‘ (سیرت بن ہشام )۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا (ابن ہشام)۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام کے دور میں بھی رہا۔ جنگی قیدیوں سے بُرے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی۔ 6)۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے، صحابہ کرام کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہو جائے وہ تو آزاد کر دیا جائے گا، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا۔ مسند احمد، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا اک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ : لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح۔ ’’اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقیناً فلاح پا جاتا۔‘‘ یہی بت حضرت عمر ؓ نے فرمائی ہے کہ اذااسلم الا سیر فی ایدی المسلمیں فقش امن من القتل وھو رقیق۔’’جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہو جائے گا مگر غلام رہے گا۔‘‘ اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا (السیر الکبیر، امام محمد)۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کر لے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کر لیتا۔ 7)۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے۔‘‘ اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں ‘‘مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلاً آزاد قرار دے دے‘‘۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں مل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو۔ مثال کے طو پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا، اور پھر حضرت عمرؓ نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ ’’اے امیر المومنین، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہن نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جاؤ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو‘‘۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کر لیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰؓ اشعری کو لکھا کہ ’’جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشت کار اور کسان کو چھوڑ دو‘‘۔ |