اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ محمد حاشیہ نمبر۸

اس آیت کے الفاظ سے بھی، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آ جانے  کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ’’جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈ بھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔

آگے آیت 20 کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے لیں کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورہ حج کی آیت 39 اور سورہ بقرہ کی آیت 190 میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو۔

اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیات 67۔69 بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ وہاں ارشاد ہوا ہے :

’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے‘‘۔

اس عبارت اور خصوصاً اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی  ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو کرنے میں لگ گئے تھے، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورہ محمدؐ میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ’’جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘‘۔ تاہم، چونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی۔ ’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا‘‘ کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورہ محمدؐ کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو۔ اس لیے یہ ماننے پڑے گا کہ یہ آیت سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم تفسیر سورہ انفال، حاشیہ 49)۔

یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں، اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے جس طرح عمل کیا ہے، اور فقہاء نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

1)۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہو جائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کر دیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔

2)۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کر لو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حسن بصری،عطاء اور حماد بن ابی سلیمان، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جا سکتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہو گئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آگیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص کی روایت ہے کہ کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ امام محمد نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا  حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا۔

3)۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشا یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر مے 70 قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا۔ نبی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ کے فیصلے پر حوالے کیا تھا، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کر دیا جائے۔ ان مستثنیات کے سوا حضور کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کر سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہو جائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کر لے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جا سکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا  ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کر دیا جائے، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے۔

4)۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عم حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو، یا فدیے کا معاملہ کر لو۔

احسان میں چر چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کر دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔

فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت ہی نے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں، ان کا تبادلہ کر لیا جائے۔

ان سب مختلف صورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کر دیا ہے۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کر سکتی ہے۔

5)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج، حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت  بھی کی گئی ہے اور عملاً بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استو صوابالا سارٰی خیراً، ’’ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘۔ ان میں سے ایک قیدی، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلقو حضور سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے، اس کے دانت تڑوا دیجیے۔ حضور نے جواب دیا ’’اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگر چہ میں نبی ہوں‘‘ (سیرت بن ہشام )۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا (ابن ہشام)۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام کے دور میں بھی رہا۔ جنگی قیدیوں سے بُرے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی۔

6)۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے، صحابہ کرام کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہو جائے وہ تو آزاد کر دیا جائے گا، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا۔ مسند احمد، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا اک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ : لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح۔ ’’اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقیناً فلاح پا جاتا۔‘‘ یہی بت حضرت عمر ؓ نے فرمائی ہے کہ اذااسلم الا سیر فی ایدی المسلمیں فقش امن من القتل وھو رقیق۔’’جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہو جائے گا مگر غلام رہے گا۔‘‘ اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا (السیر الکبیر، امام محمد)۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کر لے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کر لیتا۔

7)۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے۔‘‘ اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں ‘‘مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلاً آزاد قرار دے دے‘‘۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں مل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو۔ مثال کے طو پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا، اور پھر حضرت عمرؓ نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ ’’اے امیر المومنین، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہن نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جاؤ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو‘‘۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کر لیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰؓ اشعری کو لکھا کہ ’’جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشت کار اور کسان کو چھوڑ دو‘‘۔

8)۔ احسان کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قیدی کو بلا کسی فدیے اور معاوضے کے یونہی رہا کر دیا جائے۔ یہ ایک خاص رعایت ہے جو اسلامی حکومت صرف اسی حالت میں کر سکتی ہے جبکہ کسی خاص قیدی کے حالات اس کے متقاضی ہوں، یا توقع ہو کی یہ رعایت اس قیدی کو ہمیشہ کے لیے ممنون احسان کر دے گی اور وہ دشمن سے دوست یا کافر مومن بن جائے گا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دشمن قوم کے اسی شخص کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ پھر ہم سے لڑنے آ جانے کسی طرح بھی تقاضائے مصلحت نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فقہائے اسلام نے بالعموم اس کی مخالفت کی ہے اور اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ’’اگر امام مسلمین قیدیوں کو، یا ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دینے میں مصلحت پائے تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے‘‘۔ (السیر الکبیر)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں اور قریب قریب سب میں مصلحت کا پہلو نمایاں ہے۔

جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق آپ نے فرمایا لوکان المطعم بن عدیٍّ حیًّا ثم کلّمنی فی ھٰؤلاء النتنیٰ لنزکتھم لہ (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد)۔ ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ کچھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں یونہی چھوڑ دیتا‘‘۔ یہ بات حضورؐ  نے اس لیے فرمائی تھی کہ آپ جب طائف سے مکہ معظمہ واپس ہوئے تھے اس وقت مطعم ہی نے آپ کو اپنی پناہ میں لیا تھا اور اس کے لڑکے ہتھیار باندھ کر اپنی حفاظت میں آپ کو حرم میں لے گئے تھے۔ اس لیے آپ اس کے احسان کا بدلہ اس طرح اتارنا چاہتے تھے۔

بخاری، مسلم، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اُثال جب گرفتار ہو کر آئے تو حضورؐ نے ان سے پوچھا ’’ثمامہ، تمہارا کیا خیال ہے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے، اگر مجھ پر احسان کریں گے تو ایسے شخص پر کریں گے جو احسان ماننے والا ہے، اور اگر آپ مال لینا چاہتے ہیں تو مانگیے، آپ کو دیا جائے گا‘‘۔ تین دن تک آپ ان سے یہی بات پوچھتے رہے اور وہ یہی جواب دیتے رہے۔ آخر کو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ رہائی پاتے ہی وہ قریب کے ایک نخلستان میں گئے، نہا دھو کر واپس آئے، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور عرض کیا کہ ’’آج سے پہلے کوئی شخص میرے لیے آپ سے اور کوئی دین آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا، مگر اب کوئی شخص اور کوئی دین مجھے آپ سے اور آپ کے دین سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے‘‘۔ پھر وہ عمرہ کے لیے مکے گئے اور وہاں قریش کے لوگوں کو نوٹس دے دیا کہ آج کے بعد کوئی غلہ تمہیں یمامہ سے نہ پہنچے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم اجازت نہ دیں۔ چنانچہ انہوں نے ایس ہی کیا اور مکہ والوں کو حضورؐ سے التجا کرنی پڑی کہ یمامہ سے ہمارے غلہ کی رسد بند نہ کرائیں۔

بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ نے زبیر بن باطا اور عمرو بن سعد (یاابن سعدیٰ) کی جان مخشی کی۔ زبیر کو اس لیے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانے میں جنگ معاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری کو پناہ دی تھی، اس لیے آپ نے اس کے حضرت ثابت کے حوالہ کر دیا تاکہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کر دین۔ اور عمو بن سعد کو اس لیے چھوڑا کہ جب بنی قریظہ حضور کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہی شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا (کتاب الاموال لابی عبید)۔

غزوہ نبی المصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے، اس وقت حضرت جویریہ جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اس کو ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ نے انہیں رہا کرایا اور پھر ان سے خود نکاح کر لیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے یہ کہ کر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا کہ یہ ’’اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ دار ہو چکے ہیں‘‘۔ اس طرح سو 100 خاندانوں کے آدمی رہا ہو گئے (مسند احمد۔طبقات ابن سعد۔ سیرت ابن ہشام)۔

صلح حدیبیہ  کے موقع پر مکہ کے 80 آدمی تننعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ کے کیمپ پر اچانک شبخون مارنے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے اور حضورؐ نے سب کو چھوڑ دیا تاکہ اس نازک موقع پر یہ معاملہ لڑائی کا موجب نہ بن جائے(مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، مسند احمد)۔

فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف کر دیا، اور جنہیں مستثنیٰ کیا تھا ان میں سے بھی تین چار کے سوا کوئی قتل نہ کیا گیا۔ سارا عرب اس بات کو جانتا تھا کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کیے تھے۔ اس کے مقابلہ میں فتح پا کر جس عالی حوصلگی کے ساتھ حضورؐ نے ان لوگوں معاف فرمایا اس سے اہل عرب کو یہ اطمینان حاصل ہو گیا کہ ان کا سابقہ کسی جبار سے نہیں بلکہ ایک نہایت رحیم و شفیق اور فیاض رہنما سے ہے۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب کو مسخر ہونے میں دو سال سے زیادہ دیر نہ لگی۔

جنگ حنین کے بعد جب قبیلہ ہَوازِن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حاضر ہو ا تو سارے قیدی تقسیم کیے جا چکے تھے۔ حضورؐ نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا یہ لوگ تایب ہو کر آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں۔ تم میں سے جو کوئی بخوشی اپنے حصے میں آئے ہوئے قیدی کو بلا معاوضہ چھوڑنا چاہے وہ اس طرح چھوڑ دے، اور جو معاوضہ لینا چاہے اس کو ہم بیت المال میں آنے والی پہلی آمدنی سے معاوضہ دے دیں گے۔ چنانچہ چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضہ لینا  چاہا انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا، (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد، طبقات ابن سعد)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو کہ تقسیم ہو چکنے کے بعد حکومت قیدیوں کو خود رہا کر دینے کی مجاز نہیں رہتی، بلکہ یہ کام ان لوگوں کی رضا مندی سے، یا ان کو معاوضہ دے کر کیا جا سکتا ہے جن کی ملکیت میں قیدی دیے جا چکے ہوں۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابۂ کرام کے دور میں بھی بطور احسان قیدیوں کو رہا کرنے کی نظیریں مسلسل ملتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا، اور حضرت عمرؓ نے ہُرمُز ان کو اور مناذِر اور میسان کے قیدیوں کو آزادی عطا کی (کتاب الاموال لابی عبید)۔

9)۔ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے جب کہ فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لے کر ان کو رہا کیا گیا(طبقات ابن سعد۔ کتاب الاموال)۔ صحابۂ کرام کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے بالعموم اس کا ناپسند کیا ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم روپیہ لے کر دشمن کے ایک آدمی کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پھر ہمارے خلاف تلوار اٹھائے۔ لیکن چونکہ قرآن میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ اس پر عمل بھی کیا ہے، اس لیے ایسا کرنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے۔ امام محمد السیر الکبیر میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔

10)۔ کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔ قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے، ان کی رہائی کے لیے حضورؐ نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکنا پڑھنا سکھا دیں۔ (مسند احمد، طبقات ابن سعد، کتاب الاموال)۔

11)۔ قیدیوں کے تبادلےکی متعدد مثالیں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجا اور اس میں چند قیدی گرفتار ہوئے۔ ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت بھی تھی جو حضرت سلمہ بن اکوع کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باصرار اس کو حضرت سلمہ سے مانک لیا اور پھر اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے کئی مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا (مسلم۔ ابوداؤد۔طحاوی۔ کتاب الاموال لابی عبید۔ طبقات ابن سعد)۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو قید کر لیا۔ اس کچھ مدت بعد ثقیف کے حلیف قبیلے، بنی عقیل کا ایک آدمی مسلمانوں کے پاس گرفتار ہو گیا۔ حضورؐ نے اس کو طائف بھیج کر اس کے بدلے ان دونوں مسلمانوں کر رہا کرا لیا۔(مسلم، ترمذی، مسند احمد )۔ فقہاء میں سے امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا ایک قول یہ ہے کہ تبادلہ نہیں کرنا چاہیے، مگر دوسرا قول ان کا بھی یہی ہے کہ تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہو جائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ بر آہو نے کی گنجائش ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کی اس آیت کا بس یہ مختصر سا مطلب لے لیتے کہ جنگ میں قید ہونے والوں کو ’’یا تو بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے‘‘، وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ جنگی قیدیوں کا معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے، اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آیندہ کر سکتا ہے۔