سورۃ محمد حاشیہ نمبر۳۴ |
|
اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھتے رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ |