اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ محمد حاشیہ نمبر۳

اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَا لَہُمْ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا۔ گمراہ کر دیا۔ ضائع کر دیا۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں، مثلاً خانۂ کعبہ کی نگہبانی، حاجیوں کی خدمت، مہمانوں کی ضیافت، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ضائع کر دیا۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں، اللہ نے ان کو رائگاں کر دیا۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہر گز نہ پہنچ سکیں گے۔