اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ محمد حاشیہ نمبر۲

اصل میں صَدُّ وْ ا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پرآنے سے باز رہے، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا۔
دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمن لانا مشکل ہو جائے۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے  اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے ہیں ایک سنگ گراں ہے، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے۔