اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۶

یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں، نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔ اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ  تین اقسام پر منقسم ہیں۔ ایک، بے روح اور بے عقل مخلوقات دوسرے، وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔ تیسرے، وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود، جو اللہ کے مقرب انسان تھے، تو ان کے بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی،اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہر گز پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ غور  کیجیے  تو معلوم ہو گا کہ ان کے بے خبر رہنے کے بھی دوہی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہان دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں، اس لیے کہیہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی، اور خدا ان ظالموں کو ہر گز خوش نہیں کرنا چاہتا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہی کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے کیوں کہ  یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کے موجب ہیں، اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار  اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تو بیخ سنوا دی گئی، کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کی موجب ہے۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کی موجب، یا مجرمین کے لیے فرحت کی موجب ہو وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔ اس تشریح سے سماع موتیٰ کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔