اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۳۳

اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری، سعید بن حبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم  طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ نے قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔
یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا اسیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں۔ نقشے میں ان مقامات کا موقع ملاحظہ ہو۔