اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدخان حاشیہ نمبر۳

سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّل ُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّ وْ حُ فِیْھَا بِاِ ذْ نِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ، ’’ اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن س ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں ۔بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں  قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد ، قتادہ، حسن بصری ، سعید بن جبیر، ابن زید ، ابو مالک ، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں  کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے ، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں  قائم کی جا سکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے ، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتیں ۔‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ’’ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔ (احکام القرآن)