اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۵۵

اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے ، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی ۔ لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے ۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پرا یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے ۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن ریم ہیں اور یہی سیاق سباق کے لحاظ سے درست ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس، مجاہد ، عکرمہ، قتادہ، سدی ، ضحاک، ابواالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس  کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے ۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے ۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے ۔  ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ’’ پس تم اس میں شک نہ کرو‘‘۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو  بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے ، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے بعد دوبارہ زندہ کر دے ۔