اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۴۴

فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ خدا کے عذاب سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرانا چاہتے تھے اس وقت بھی وہ آپ کو پیغمبر کہنے کے بجائے جادوگر ہی کہہ کر خطاب کرتے تھے ۔ حالانکہ وہ جادو کی حقیقت سے نا واقف نہ تھے ، اور ان سے یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی کہ یہ کرشمے کسی جادو سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبے میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان  کے ذہن پر ایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ پانی خون بن گیا ہے ، یا مینڈک اُبلے پڑ رہے ہیں، یا ٹڈی دل چڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اور اس محدود رقبے کے اندر بھی کوئی  پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ اس دائرے سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا۔ کوئی مینڈک فی الواقع پیدا نہ ہو گا بلکہ اسے پکڑ کر آپ اس دائرے سے باہر لے جائیں گے تو آپ کے ہاتھ  میں مینڈک کے بجائے صرف ہوا ہو گی ۔ ٹڈی دَل بھی محض خیالی دل ہو گا ، کسی کھیت کو وہ نہ چاٹ سکے گا ۔ رہی یہ بات کہ ایک پورے ملک میں قحط بر پا ہو جائے ، یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنوئیں  خون سے بھر جائیں ، یا ہزار ہا میل کے رقبے پر ٹدی دل ٹوٹ پڑیں اور وہ لاکھوں ایکڑ کے کھیت صاف کر جائیں، یہ کام نہ آج تک کبھی کوئی جادوگر  کر سکا ہے ، نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے ۔ ایسے جادو گر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی،  جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا۔ بلکہ جادو گروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے ؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے ؟

مفسرین کو بالعموم یہ پریشانی پیش آئی ہے کہ جب عذاب سے نجات پانے کے لیے فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اس وقت وہ ان کو ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر کیسے خطاب کرتے تھے ۔ مصیبت کے وقت مدد کی التجا کرنے والا تو خوشامد کرتا ہے نہ کہ مذمت ۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ جادو اس زمانے کے اہل مصر کے نزدیک بڑا با وقعت  علم تھا اور ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر در اصل وہ حضرت موسیٰکی مذمت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے نزدیک  عزت کے ساتھ وہ گویا ان کو ’’ اے عالم ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ لیکن یہ تاویل اس بنا پر بالکل غلط ہے کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر جہاں جہاں بھی فرعون کے وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں جن میں اس نے حضرت موسیٰ کو جادو گر اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو کہا ہے ، وہاں مذمت اور تحقیر کا اندازہ صاف ظاہر ہوتا ہے ، اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس کے نزدیک جادو ایک جھوٹی چیز تھی جس کا الزام حضرت موسیٰ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا ۔ اس لیے یہ ماننے کے قابل بات نہیں ہے کہ یکایک اس مقام پر اس کی نگاہ میں ’’ ساحر‘‘ ایک با عزت عالم کا لقب بن گیا ہو۔ رہا یہ سوال کہ جب دعا کی درخواست کرتے وقت بھی وہ علانیہ حضرت موسیٰ کی توہین کرتا تھا تو آپ اس کی درخواست قبول ہی کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنجناب کے پیش نظر اللہ کے  حکم سے ان لوگوں پر حجت تمام کرنا تھا ۔ عذاب ٹالنے کے لیے ان کا آپ سے دعا کی درخواست کرنا خود یہ ثابت کر رہا تھا کہ اپنے دلوں میں وہ جان چکے ہیں کہ یہ عذاب کیوں آ رہے ہیں،کہاں سے آ رہے ہیں، اور کون انہیں ٹال سکتا ہے ۔ اس کے باوجود جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ کو ساحر کہتے تھے ، اور عذاب ٹل جانے کے بعد راہ راست قبول کرنے کے وعدے سے پھر جاتے تھے ، تو در حقیقت وہ اللہ کے نبی کا کچھ نہ بگاڑتے تھے بلکہ اپنے خلاف اس مقدمے کو اور زیادہ مضبوط کرتے چلے جاتے تھے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کلی استیصال کی شکل میں آخر  کر دیا ۔ان کا آپ کو ساحر کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ در حقیقت اپنے دل میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ عذاب ان پر جادو کے زور سے آ رہے ہیں۔بلکہ اپنے دلوں میں وہ خوب سمجھتے تھے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نشانیاں ہیں ، اور پھر جان بوجھ کر ان کا انکار کرتے تھے ۔ یہی بات ہے جو سورہ نمل میں فرمائی گئی ہے کہ : وَحَجّدُ وْ ا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتُھَا اَنْفُسُھُمْظُلْماً وَّ عُلُوَّ ا (آیت 14)۔ ‘‘ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کا انکار کیا ۔‘‘