اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۳۰

دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میںسے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا ۔ رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی ، س نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی ، جواب گزرا اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے ،اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے ۔ کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود،حبیب بن عمرہ، کنانہ بن عبد عمرو ، اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال ۔ پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں ، اور انسانوں  کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر ، اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، بال بچوں والے تھے اور کھانے پیتے سے مبرا نہ تھے (ملاحظہ ہو الجحل، آیت ، 43۔ بنی اسرائیل ، 94۔95۔ یوسف ، 109۔ الفرقان، 7۔20۔الانبیا، 7۔8۔الرعد، 38)، تو انہوں نے یہ دوسری پیترا بدلا کہ اچھا ، بشر ہی رسول سہی، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے ۔ مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟