اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۲

’’ امّ الکتاب ‘‘ سے مراد ہے ’’ اصل الکتاب‘‘ یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ  مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے ، اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مِٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے ۔ قرآن کے متعلق یہ فرم کر کہ یہ ’’ امّ الکتاب‘‘ میں ہے  ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، کگر ان سے میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے ، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے ، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے ، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گۓ ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے ، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں ۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب کے بجاۓ کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضورؐ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہٗ  لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِ نَّہٗ  لَفِیْ زُبُرِ الْاَ وَّ لِیْنَ (192۔ 196)۔ ’’ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں ، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔‘‘(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحات 534 ۔ 535)