اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر۷۵

 انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں ، اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مدد گار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ در اصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے ، بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے ، تاکہ وہ چڑ نہ جائے، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔