اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر١

 افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل ، ہر چوپال، ہر کوہ و بازار، اور ہر مکان  اور دُکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اور قرآن کے  مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے ، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آ رہا ہے ، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے ، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں ، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور  کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں  وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے ، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں ، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے، مگر  در اصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں ، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔

وحی کے لغوی  معنی ہیں ’’ اشارہ سریع‘‘ اور ’’ اشارہ خفی‘‘ ، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے ، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے۔  اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے د ل میں ڈالی جائے۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کوئی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے ، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔

پھر یہ جو  ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں ، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔