اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۷۰

 اس آیت کے دو مفہوم ہیں اور  دونوں ہی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں :

ایک مفہوم یہ ہے کہ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گرد و پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہیں ۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ مان کر نہیں دے رہے ہیں ، وہ سراسر حق تھا۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کا غالب آ جانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کر لینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے، باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہیں اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملے پر غور کیے بغیر کر دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاٴئے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحت اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے،بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح ممالک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھی جو ا یک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کا مالک بنا دیتی ہیں اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے۔ اس کے بر عکس یہ فتح اپنے جِلَو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے، انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے۔ دنیا جن فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھی کہ کاروبار دنیا چلانے  والوں میں بھی وہ پاٴئے جا سکتے ہیں ، اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرمانرواؤں کی سیاست میں ، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں ، فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں ،ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیلداری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیے۔ اس نے اپنے پیدا کروہ معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق اور کردار اور طہارت و نظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فروتر نظر آنے لگے۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحقیق اور معقول طرز فکر و عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے، یا اگر انہوں نے اس کی فکر کی بھی تو ان امراض کے علاج میں کامیاب نہ ہو سکے، مثلاً رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق، ایک ہی معاشرے میں طبقات کی تقسیم اور ان کے درمیان اونچ نیچ کا امتیاز اور چھوت چھات، قانونی حقوق اور عملی معاشرت میں مساوات کا فقدان، عورتوں کی پستی اور بنیادی حقوق تک سے محرومی، جرائم کی کثرت، شراب اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج، حکومت کا تنقید و محاسبے سے بالا تر رہنا، عوام کا بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہونا، بین الاقوامی تعلقات میں معاہدات کی بے احترامی، جنگ میں وحشیانہ حرکات، اور ایسے ہی دوسرے امراض۔ سب سے بڑھ کر خود عرب کی سر زمین میں اس انقلاب نے دیکھتے دیکھتے طوائف الملوکی کی جگہ نظم، خونریزی و بد امنی کی جگہ امن، فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت، ظلم و بے انصافی کی جگہ عدل، گندگی و نا شائستگی کی جگہ پاکیزگی اور تہذیب، جہالت کی جگہ علم، اور نسل در نسل چلنے والی عداوتوں کی جگہ اخوت و محبت پیدا کر دی، اور جس قوم کے لو گ اپنے قبیلے کی سرداری سے بڑھ کر کسی چیز کا خواب تک نہ دیکھ سکتے تھے انہیں دنیا کا امام بنا دیا۔ یہ تھیں وہ نشانیاں جو اسی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جسے مخاطب کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی مرتبہ یہ آیت سنائی تھی۔ اور اس کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو برابر دکھاٴئے جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے دور میں بھی اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب و شائستگی کے علمبردار بنے پھتے ہیں ۔ یورپ  کی قوموں نے افریقہ، امریکہ، ایشیا اور خود یورپ  میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئ نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں  اتنی انسانیت پیدا کر دی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پا کر اترے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پاٴئے گئے ہیں اور آج تک پاٴئے جا رہے ہیں ۔ کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمراں رہے اس وقت عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہندوستان میں آٹھ سو برس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آ جانے کے بعد کیا برتاؤ کر رہے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے۔

دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آفاق ارض و سماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھاٴئے گا جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے وہی برحق ہے۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آفاق ارض و سماء اور خود اپنے وجود کو تو لوگ اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ پھر زمانہ مستقبل میں ان چیزوں کے اندر نشانیاں دکھانے کے کیا معنی۔ لیکن یہ اعتراض بھی ویسا ہی سطحی ہے جیسا اوپر کے مفہوم پر اعتراض سطحی تھا۔ آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر  زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان احاطہ نہیں کر سکا ہے،نہ کبھی کر سکے گا۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی۔