اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۵۸

 اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد، ان کے نفس کی خواہشات، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں ۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے  تم پر، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔