اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۴٦

 مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر  نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں۔

اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آئتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ لیکن حضرات ابن عباس، ابن عمر، سعید بن المسیّب، مسرق، قتادہ، حسن بصری، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی، ابن سیرین، ابراہیم بَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ  پر سجدے کے قائل ہیں ۔ یہی امام ابو حنیفہؒ کا قسل بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے۔