اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۳۳

 یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔

توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اور اکابر صحابہؓ نے اس طرح کی ہے :

حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قد قا لھا ا لناس ثم کفر اکثر حم، فمن مات علیھا فھو ممن استقام۔ ’’ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گٴئے۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا‘‘ (ابن جریر، نسائی ابن ابی حتم)۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکو ا باللہ شیئاً، لَمْ عَلتفتواالٰی الٰہٍ غیرہ۔ ’’ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی‘‘(ابن جریر)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا،’’ خدا کی قسم، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گٴئے، لومڑیوں کی طرح ادھر سے اِدھر سے اُدھر سے اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ‘‘ (ابن جریر)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا‘‘ (کشاف)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ‘‘ (کشاف )