اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۲۹

 یہ اللہ تعالیٰ کی مستقل اور دائمی سنت ہے کہ وہ بُری نیت اور بُری خواہشات رکھنے والے انسانوں کو کبھی اچھے ساتھی نہیں دلواتا، بلکہ انہیں ان کے اپنی رجحانات کے مطابق بُرے ساتھی ہی دلواتا ہے۔ پھر جتنے جتنے وہ بدی کی پستیوں میں گہرے اترتے جاتے ہیں اتنے ہی بدتر سے بدتر آدمی اور شیاطین ان کے ہم نشین اور مشیر اور رفیق کار بنتے چلے جاتے ہیں ۔بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ فلان صاحب بذات خود تو بہت اچھے ہیں ، مگر انہیں ساتھی بُرے  مِل  گئے ہیں ، حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کو ویسے ہی دوست ملتے ہیں جیسا وہ خود ہوتا ہے۔ ایک بیک آدمی کے ساتھ اگر بُرے لوگ لگ بھی جائیں تو وہ اس کے ساتھ زیادہ دیر تک لگے نہیں رہ سکتے۔ اور اسی طرح ایک بد نیت اور بد کردار آدمی کے ساتھ نیک اور شریف انسانوں کی رفاقت اتفاقاً واقع ہو بھی جائے تو  وہ زیادہ دیر تک نہیں نبھ سکتی۔ بد آدمی فطرۃً بدو ہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بد ہی اس کی طرف کھنچتے ہیں ، جس طرح غلاظت مکھیوں کو کھینچتی ہے اور مکھیاں غلاظت کی طرف کھنچتی ہیں ۔اور یہ جو ارشاد فرمایا کہ وہ آگے اور پیچھے ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کا ماضی بھی بڑا شاندار تھا اور مستقبل بھی نہایت درخشاں ہے وہ ایسی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھاتے تھے کہ ہر طرف ان کو ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ آپ پر تنقید کرنے والے احمق ہیں ، آپ کوئی نرالا کام تھوڑی کر رہے ہیں ، دنیا میں ترقی کرنے والے وہی کچھ کرتے رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں اور آگے اول تو کوئی آخرت ہے ہی نہیں جس میں آپ کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے، لیکن اگر وہ پیش آ ہی گئی، جیسا کہ چند نادان دعویٰ کرتے ہیں ، تو جو خدا آپ کو یہاں نعمتوں سے نواز رہا ہے وہ وہاں بھی آپ پر انعام و اکرام کی بارش کرے گا، دوزخ آپ کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بنی ہے جنہیں یہاں خدا نے اپنی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے۔