اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر١

یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں ۔

پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے۔ یعنی تم جب تم  چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود تصنیف کر رہے ہیں ، لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بجبیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصّہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو، اور اگر اس سے بے رخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو۔

دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان (رحمان اور رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجاٴئے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بے رخی برتتا ہے، یا اسے رد کرتا ہے، یا اس پر چین بجبیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنورنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہو گا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجاٴئے الٹا اس سے لڑتے کے لیے دوڑے۔

تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ۔ اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں ۔ اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کر سکتا۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے۔

چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے۔(اس مقام پر آیت 44 بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے، اس سے پہلے ہم رفع کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 383،384۔ رسائل و مسائل، حصہ اول، ص 19 تا 23)

پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں ۔ یعنیاس سے فائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو۔

چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل، ایک فلسفہ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو۔ بلکہ یہ ہانکے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں ۔ ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سر سری طور پر نظر انداز کر سکتا ہے۔