اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۴۷

 اس فقرے دو مطلب ممکن ہیں، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افتا جیسی بری جمع نہیں ہو سکتیں۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو اہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرماۓ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عاید کر کے اپنے نا پاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہر گز کامیابی کا راستہ نہ دکھاۓ گا۔