اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۴٦

 یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ دوسرا احتمال، اور نہایت قومی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تا اس سے تعرض نہ کرو۔ وہ اللی کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا۔قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے۔ وَاِنْلَّمْ تُؤْ مِنُوْ الِیْ فَا عْتَزِلُوْنِ (الدخان : 21) ’’ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘
یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بار کر رہا ہے۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آۓ تو آخر  میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے۔