اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۴۳

یعنی، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا،  لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت کرے، محض تحفظ امن عام (Maintenance  of Public order) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع  امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے۔ سرکارِ عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے  تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے۔
اس مقام پر ’’ دین بدل ڈالنے ‘‘ کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ  انی اخاف ان یغیر سلطانکم (روح المعانی، ج 24 ص 56)۔ بالفاظ دیگر، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدّن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو، خطرہ مجھے نہیں، تمہیں لاحق  ہے، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جاۓ گا۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ میان تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک  اور قوم کا دشمن ہے۔